منگل، 5 مارچ، 2013

نظریہ سازش (Conspiracy Theory)

0 تبصرے
روز مرہ کے اخبارات و رسائل پڑھیے یا ٹیلی وژن پر سیاسی تجزیے سنیے، بہت سے تجزیہ نگار، صحافی بلکہ مذہبی علما بھی یہ خیال پیش کرتے نظر آتے ہیں کہ دنیا بھر کی قومیں ہمارے خلاف سازش کر رہی ہیں۔ ہم خود کو دنیا کا مرکز سمجھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ دنیا کو اس کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے کہ وہ ہمارے خلاف سازش کرے۔ ہمارے لوگ، خواہ وہ مذہبی ہوں یا نہ ہوں، اپنے ذہن میں کسی سازش کا تانا بانا ترتیب دیتے ہیں اور پھر انکشاف کرنے کے سے انداز میں اس سازش کو بیان کرنے میں فصاحت و بلاغت کا زور صرف کر دیتے ہیں۔ یہ حضرات اٹھارہویں صدی سے جاری امت مسلمہ کے اس زوال کو اہل مغرب کی سازش قرار دیتے ہیں۔ ان کے نظریہ تاریخ میں مغرب و مشرق کی اقوام امت مسلمہ کے خلاف مسلسل سازشیں کرتی نظر آتی ہیں۔ انہی سازشوں کو یہ حضرات امت کے زوال کا سبب قرار دیتے ہیں۔ اہل پاکستان کو یہ خیال یہ ہے کہ بھارت ان کے خلاف مسلسل سازشیں کرنے میں مشغول ہے اور اسی طرح عرب دنیا میں اسرائیل کی سازشوں کا تذکرہ ہے۔ ان سازشی تھیوریز کو پھیلانے میں سب سے اہم کردار ہمارے جاسوسی اور تاریخی ناول نگاروں نے ادا کیا ہے۔
یہ معاملہ صرف ہمارے ہاں ہی نہیں ہے بلکہ دنیا کی دیگر اقوام کا معاملہ بھی یہی ہے۔  اہل مغرب کے ہاں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو ہمہ وقت اپنی قوم کو مسلمانوں کی سازشوں سے آگاہ کرتے ہیں۔ یہ اسلامو فوبیا  (Islamophobia)یعنی اسلام کا خوف  اپنے لوگوں میں پھیلانے میں مشغول ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کی امیگریشن کا راستہ نہ روکا گیا اور موجودہ مسلمانوں کو مغرب سے نکال باہر نہ کیا گیا تو ایک وقت آنے والا ہے جب اسلام یورپ اور امریکہ کا غالب مذہب ہو گا اور ان کی وہ آزادیاں چھین لی جائیں گی  جنہیں انہوں نے بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے۔ پھر ان کی خواتین کو حجاب پہننا پڑے گا اور انہیں اپنے مذہب پر عمل کی آزادی حاصل نہیں ہو گی۔  اسی طرح بھارت کی انتہا پسند تنظیموں کے لٹریچر کا مطالعہ کیا جائے تو وہ بھی مسلمانوں اور عیسائیوں کو سازش کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں اور انہیں ہندو مذہب کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں۔
اصل میں ہوتا یہ ہے کہ سازشی نظریات کی مدد سے لوگوں کے جذبات سے کھیلنا آسان ہوتا ہے۔ ہر قوم میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو منفی سیاست کرتے ہیں۔ ان کے لیے بہت آسان ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کی سازش کا ذکر کر کے لوگوں کے جذبات سے کھیلیں اور اس طریقے سے اپنی سیاسی قوت میں اضافہ کریں۔ اس قسم کے لوگ ہمارے ہاں بھی پائے جاتے ہیں اور غیر مسلم اقوام کے ہاں بھی۔  جن قوموں میں جہالت اور منفی سوچ پائی جاتی  ہے، وہاں یہ سیاست دان زیادہ کامیاب رہتے ہیں لیکن جن قوموں میں علم اور شعور پایا جاتا ہے، وہاں یہ ناکام رہتے ہیں۔
اس سازشی سوچ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان منفی طرز فکر کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ دشمن نے بہت سے ایجنٹ اس کے ملک میں چھوڑ رکھے ہیں جو اس کی جڑیں کاٹنے میں مشغول ہیں۔ ایسا شخص اپنے گرد و نواح میں موجود ہر دوسرے شخص  کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کے بارے میں بدگمانی جیسے گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ مثلاً ہمارے ہاں دیکھیے کہ جتنے بھی فرقے  اور مذہبی جماعتیں ہیں، ان میں سے ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ وہ راہ راست پر ہے اور بقیہ تمام فرقے اور جماعتیں انگریزوں کی سازش کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں۔ اس مرض کو سائیکاٹری کی اصطلاح میں پیرا نوئیا (Paranoia) کہا جاتا ہے اور جب یہ کسی معاشرے میں پھیل جائے تو پوری قوم پیرا نوئیا کا شکار ہو جاتی ہے۔  اس میں جو لوگ انتہا تک پہنچتے ہیں، وہ اپنے سوا ہر کسی کے خلوص پر شک کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ فلاں، فلاں قوت کا آلہ کار اور ایجنٹ بنا ہوا ہے اور ان کے ایجنڈے پر عمل کر رہا ہے۔
جب انسان سازشی نفسیات میں مبتلا ہو جاتا ہے تو وہ دوسروں کے خلاف بدگمانی جیسے بڑے گناہ کا ارتکاب کرنے میں بھی حرج محسوس نہیں کرتا۔ اس وقت وہ قرآن مجید کی اس ہدایت کو فراموش کر دیتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ.
اے اہل ایمان! بہت گمان کرنے سے بچا کیجیے کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ (ایک دوسرے سے متعلق) تجسس نہ کیا کیجیے اور نہ ہی آپ میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا آپ میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ یقیناً آپ اس سے کراہت محسوس کریں گے۔ اللہ سے ڈرتے رہیے، یقیناً اللہ توبہ قبول کرنے والا اور ہمیشہ رحمت فرمانے والا ہے۔ (الحجرات 49:12)
یہ بات تو درست ہے کہ جب دو افراد یا قوموں میں کوئی کشمکش چل رہی ہو تو وہ ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتے ہیں لیکن یہ سازشیں کبھی کبھار ہی رو بہ عمل ہوتی ہیں اور ان کا دائرہ اثر ہمیشہ محدود ہوتا ہے۔ سازش کے کامیاب ہونے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ مخالف کی کسی کمزوری کو استعمال کیا جائے۔   اگر یہ کمزوری نہ ملے تو سازش ناکام ہو جاتی ہے۔ اسے ہم ایک مثال سے واضح کرتے ہیں۔ فرض کیجیے کہ کوئی شخص سازش کے ذریعے کسی میاں بیوی میں علیحدگی کروانا  چاہتا ہے اور اس میں اس کا کوئی مفاد ہے۔ اگر ان میاں بیوی کے رشتے میں اعتماد، محبت اور  خلوص پایا جاتا ہو گا تو اس شخص کی سازش کبھی کامیاب نہ ہو سکے گی۔ لیکن اگر ان میں بدگمانی،  شک اور نفرت پائی جاتی ہو تو یہ سازش کامیاب ہو جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی ان کے خلاف بہت سی سازشیں ہوئیں مگر وہ ناکام رہیں کیونکہ ان میں  یہ کمزوریاں نہیں پائی جاتی تھیں۔ عہد زوال میں یہ سازشیں کامیاب ہو گئیں کیونکہ خود مسلمانوں میں کمزوریاں پائی جاتی تھیں۔  اس وجہ سے امت کے زوال کا اصل سبب دشمنوں کی سازش نہیں بلکہ ہماری اپنی کمزوری ہے۔
سازشی نظریات میں مبتلا ہونے کا سب سے بڑ انتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسا ن اپنے مسائل کی وجہ اپنے اندر نہیں بلکہ دوسروں میں ڈھونڈتا ہے اور ہر وقت ایک منفی طرز فکر کا شکار رہتا ہے۔ اٹھارہویں صدی میں انگریزوں کے مقابلے میں سراج الدولہ کی شکست(1761)کو میر جعفر اور ٹیپو سلطان کی شکست (1799) کو  میر صادق کے ذمے ڈال کر ہم مطمئن ہو جاتے ہیں کہ  اگر یہ غدار نہ ہوتے تو ہم زوال پذیر نہ ہوتے۔ حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تجزیہ کرتے کہ یہ غدار ہمارے اندر ہی کیوں پیدا ہوئے؟ انگریزوں کے اندر ایسے غدار پیدا کیوں نہیں ہوئے جو اندر ہی اندر سراج الدولہ یا ٹیپو سلطان سے مل جاتے اور اپنی قوم کو شکست سے دوچار کرتے؟ جیسے انگریزوں نے سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کی افواج میں غدار تلاش کرنے کی کوشش کی تھی، بالکل ایسی ہی کوشش مسلمانوں نے بھی کی ہو گی، کیا وجہ ہے کہ انگریز ہماری صفوں میں غدار تلاش کرنے میں کامیاب رہے جبکہ ہم ناکام؟
اسی منفی نفسیات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم خود ترسی کا شکار رہتے ہیں۔ 1920 کے آس پاس کا زمانہ امت مسلمہ کے سیاسی اور معاشرتی زوال کا کلائمیکس تھا۔ اس کے بعد سے امت کے حالات بہتر ہونا شروع ہوئے اور تقریباً سو برس کے اس عرصے میں ہم بہت بہتر ہو چکے ہیں۔ لیکن اب بھی دیکھیے کہ ہمارے بہت سے مصنفین اسی زوال کا رونا رو رہے ہیں۔ یہ حضرات اس بات پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنےسے قاصر ہیں کہ 1920 کے مقابلے میں آج ہم بہت بہتر مقام پر کھڑے ہیں اور امت مسلمہ اپنے زوال کے انتہائی نقطے کو چھونے کے بعد الحمد للہ ترقی کی طرف گامزن ہو چکی ہے اور امید ہے کہ اگلے سو برس میں ہم مزید بہتر مقام پر پہنچ چکے ہوں گے۔
ہونا یہ چاہیے کہ ہم دوسروں کی سازشوں کو بے نقاب کرنے میں اپنی قوت صرف کرنے کی بجائے اپنی کمزوریوں کی اصلاح کریں۔ دنیا پرستی، لالچ، حسد، بغض، بدگمانی، غیبت، تجسس، تکبر، منفی طرز فکر  اور اس نوعیت کے بہت سے امراض ایسے ہیں جو ہمارے ہاں موجود ہیں جن کی وجہ سے  ہم زوال پذیر ہوئے۔ اگر ہم اپنے اندر آخرت پرستی، بے نفسی، باہمی محبت، اخوت، عجز و انکسار، مثبت طرز فکر اور خدا پرستی پیدا کر لیں تو اگر ہمارے خلاف کوئی سازش ہو گی بھی تو وہ ناکام رہے گی۔  اس کے بعد اگر ہمیں کسی سازش کا علم ہو تو اسے بغیر تحقیق آگے پھیلا دینے کی بجائے اپنے ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو یہ معلومات دیجیے جن کی ذمہ داری ہی یہ ہے کہ وہ ان سازشوں کی تحقیق کر کے ان کا حل نکالیں۔ بغیر تحقیق بات کو آگے پھیلا دینے سے ہم جھوٹ، بدگمانی اور تجسس کے مجرم بنیں گے اور اس کے لیے ہمیں اللہ تعالی کے حضور جواب دہ ہونا پڑے گا۔
غور فرمائیے!!!
۱۔ سازشی نظریات کے انسانی نفسیات اور معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
۲۔ سازشی نظریات کی بجائے ہمیں کس جانب توجہ دینی چاہیے؟
مصنف : محمد مبشر نذیر
نقل شدہ : http://www.mubashirnazir.org/PD/Urdu/PU02-0082-Conspiracy.htm

منگل، 8 جنوری، 2013

نظم - اصلی انسانی زیور - نقل شدہ : کتاب بہشتی زیور از علامہ اشرف علی تھانوی

2 تبصرے

کافی عرصہ پہلے جب پہلی بار یہ نظم پڑھی تھی تب ہی سے مجھے یہ نظم بہت اچھی لگتی ہے، آج جب یونہی انٹرنیٹ پر تلاش کی تو کہیں بھی یونیکوڈ ٹائپ شدہ حالت میں نہیں ملی، سوچا خود میں ہی کیوں نہ ٹائپ کردوں، تو نظم حاضرِ خدمت ہے، پڑھیئے اور داد دیجیئے۔

نظم - اصلی انسانی زیور - نقل شدہ : کتاب بہشتی زیور از علامہ اشرف علی تھانوی


ایک لڑکی نے یہ پوچھا اپنی اماں جان سے
آپ زیور کی کریں تعریف مجھ انجان سے
کون سے زیور ہیں اچھے یہ جتا دیجیئے مجھے
اور جو بدزیب ہیں وہ بھی بتا دیجیئے مجھے
تاکہ اچھے اور بُرے میں مجھ کو بھی ہو امتیاز
اور مجھ پر آپ کی برکت سے کھل جائے یہ راز
یوں کہا ماں نے محبت سے کہ اے بیٹی مری
گوشِ دل سے بات سُن لو زیوروں کی تم ذری
سیم و زر کے زیوروں کو لوگ کہتے ہیں بھلا
پر نہ میری جان ہونا تم کبھی ان پر فدا
سونے چاندی کی چمک بس دیکھنے کی بات ہے
چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات ہے
تم کو لازم ہے کو مرغوب ایسے زیورات
دین و دنیا کی بھلائی جس سے اے جاں آئے ہاتھ
سر پہ جُھومر عقل کا رکھنا تم اے بیٹی مُدام
چلتے ہیں جسکے ذریعہ سے ہی سب انساں کے کام
بالیاں ہوں کان میں اے جان گوش ہوش کی
اور نصیحت لاکھ تیرے جھمکوں میں ہو بھری
اور آویزے نصائح ہوں کہ دل آویز ہوں
گر کرے ان پر عمل تیرے نصیبے تیز ہوں
کان کے پتے دیا کرتے ہیں کانوں کو عذاب
کان میں رکھو نصیحتِ دیں جو اوراقِ کتاب
اور زیور گر گلے کے کچھ تجھے درکارہوں
نیکیاں پیاری مری تیرے گلے کا ہار ہوں
قوتِ بازو کا حاصل تجھ کو بازوُ بند ہو
کامیابی سے سَدا تو خرم و خر سند ہو
ہیں جو سب بازو کے زیور سب کے سب بیکار ہیں
ہمتیں بازو کی اے بیٹی تری درکار ہیں
ہاتھ کے زیور سے پیاری دستکاری خوب ہے
دستکاری وہ ہنر ہے سب کو جو مرغوب ہے
کیا کروگی اے مری جاں زیورِ خلخال کو
پھینک دینا چاہیئے بیٹی بس اس جنجال کو
سب سے اچھا پاؤں کا زیور یہ ہے نورِ بصر
تم رہو ثابت قدم ہر وقت راہِ نیک پر
سیم و زر کا پاؤںمیں زیور نہ ہو تو ڈر نہیں
راستی سے پاؤں پھسلے گر نہ میری جاں کہیں

چھپی ہوئی کتاب کے صفحے کا اسکین : http://goo.gl/PCJa2

منگل، 30 اکتوبر، 2012

اگر ، مگر اور لیکن کب تک؟

0 تبصرے

باپ اگر ماں کے حقوق ادا نہ کرے تو کیا بیٹا باپ کی جگہ لے سکتا ہے؟یہ وہ سوال تھاجسے سن کر میرے دوست کا لیکچر کچھ دیر کو رکا تو مجھے کچھ کہنے کا موقع ملا ورنہ پچھلے ایک گھنٹے سے وہ مسلسل بولے جا رہاتھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم پرجہاد فرض ہو گیا ہے کیونکہ دنیا میں کہیں بھی مسلم حکومتیں اپنے فرائض پورے نہیں کر رہیں اس لیے ہمیں خود آگے بڑھ کر جہاد شروع کر دینا چاہیے او ر حکومتوں کو معزول کر کے اقتدار خود سنبھال لینا چاہیے کیونکہ یہ انقلاب اور خلافت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔اس نے کہا کہ ظلم ، بہر حال ظلم ہے اور جو بھی مسلمان ظلم کو دیکھے اس کی ذمہ داری ہے کہ اسے طاقت( ہاتھ) سے روک دے۔ اگر یہ ہمت نہیں رکھتاتو زبان سے منع کرے ورنہ دل سے تو ضرور برا جانے ۔ وہ کہہ رہا تھا کہ بہترین جہاد جابر سلطان کے آگے کلمہ حق کہنا ہے۔وہ کہہ رہا تھا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہماری سب کی ذمہ داری ہے۔ وہ یہ بھی کہہ رہاتھا کہ اسلام غالب ہونے کے لیے آیا ہے، اب ہماری ذمہ دار ی ہے کہ دین کے غلبے کی جدوجہد کریں ۔اس سارے لیکچر میں وہ بہت ساری آیات اوراحادیث کے حوالے بھی دے رہا تھا۔
میں نے عرض کیا کہ جو قرآنی آیا ت یا احادیث تم پیش کر رہے ہو کیا ان کو تم سے پہلے بھی امت کے جلیل القد ر علما میں سے کسی نے سمجھنے کی کوشش ہے ؟ اس نے کہا کیوں نہیں، ہر دور میں علما یہ کام کرتے رہے ہیں۔میں نے کہا تم نے اپنی بات اوردعوت بیان کرنے سے قبل ،کیا ہرصدی کے جلیل القدر ائمہ اور علما کی بات سمجھ لی ہے ۔اس نے کہا ایسا تو نہیں ہے۔ میں نے کہا اصول یہ ہے کہ قرآن و حدیث کی ہر بات کوعلم کی پوری روایت کے اندر کھڑے ہو کر سمجھا جائے نہ کہ الگ سے۔ اور جب ہم اس روایت کے تسلسل میں کھڑ ے ہوتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ساری آیات اور احادیث ہرصدی کے جید علما کا موضوع رہی ہیں ۔وہ ان کا مطلب بھی بیا ن کر تے رہے ہیں اور ان پر عمل بھی کرتے رہے ہیں۔
ہر صدی کے اکابر علمااورمحققین کا اس امر پر اتفاق رہا ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکرصاحبان اقتدار کا کام ہے اور اس کے لیے قوت، اقتدار اور اتھارٹی کی ضرورت ہے ۔جس کے پاس ، جس دائرے میں جتنی اتھارٹی ہے وہ اسے صرف اسی دائرے میں استعمال کر نے کا مجاز ہے نہ کہ اس دائرے سے باہر یا جہاں اس کا دل کرے ۔ یہی مطلب اس حدیث کا ہے کہ جس میں ظلم اوربرائی کے خلاف ہاتھ یازبان یا دل کا ذکر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جہاں کوئی ہاتھ استعمال کرنے کا مجاز ہے یعنی جہاں اسے ہاتھ کے استعمال کی اتھارٹی اوراجازت دی گئی ہے اس دائرے میں اگر وہ ہاتھ کا استعمال نہیں کرتا تو عنداللہ مسئول ہوگا اور جس دائرے میں وہ ہاتھ استعمال کر نے کا حق نہیں رکھتا وہاں زبان استعمال کرے گااوراگر زبان استعمال کرنے کا دائرہ بھی نہیں ہے تو دل سے لازماً برا جانے گا۔اور اس میں مضمر بات یہ بھی ہے کہ جہاں وہ ہاتھ استعمال کرنے کا مجاز نہ تھا وہاں اگر اس نے اس کو استعمال کیاتو پھر بھی مجرم ہوگا۔
ہماری غلط فہمی یہ ہے کہ ہر دائرے کو ہم اپنا دائرہ سمجھنے لگتے ہیں اور جو حقیقت میں اپنادائرہ ہوتا ہے اسے پہچاننے سے قاصر رہتے ہیں۔اپنے دائرے میں کام نہ کرنا اور دوسرے کے دائرے میں مداخلت بے جا معاشرے میں فساد کا موجب بنتی ہے ۔ جو کام حکومت کا ہے، اسے ہم اپنے ذمہ لینے کی کوشش کرتے ہیں اورجو کام ہمارے ذمہ ہے اسے پس پشت ڈالتے رہتے ہیں۔ ہمارے ذمے اپنے اوپر ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کا نفاذ ہے ، اپنے ماحول میں نیکی کی دعوت ہے اور اپنے اپنے دائرے میں نیکی کا بالقوۃ نفاذ ہے ۔مثلاً باپ اپنے گھر کا، افسر اپنے ماتحتوں کااورحاکم اپنی رعایا کا راعی ہے، وہاں اگر وہ ہاتھ استعمال نہیں کرے گا تو مجرم ہو گا ۔ ہم اپنے ہمسائے کے ساتھ 'ہاتھ'کے استعمال کے مجاز نہیں۔ وہاں البتہ زبان کے استعمال کا دائرہ ہے، وہاں اگر زبان استعمال نہیں کریں گے تو مجرم ہوں گے اور گھر میں موقع محل کے مطابق اگرہاتھ استعمال نہیں کریں گے تو مجرم ۔ جب ہم زبان کی جگہ ہاتھ اور ہاتھ کی جگہ زبان استعمال کرنے لگتے ہیں تو فساد پیدا ہوتا ہے۔
معاشرے پر قوانین کا بالقوۃ نفاذریاست کا کام ہے اور ریاست کی نمائندہ یعنی حکومت اگر یہ کام نہیں کرتی تو کیا ہم خود کرنے لگ جائیں؟ میرے دوست کا کہنا تھا کہ ہاں اگر حکومت نہیں کرے گی تو ہم خود کریں گے جب کہ میں عرض کر رہا تھا کہ تمہیں وہیں کرنا چاہیے جہاں اللہ اوراس کے رسول نے تمہیں اختیار د یا ہے۔ جہاں جو اختیار، اللہ نے تفویض کیا ہی نہیں، اس کے بارے میں وہ سوال بھی نہیں کرے گا۔
کوئی اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتا دیکھے تب بھی قصاص لینے کامجاز نہیں۔ چور کو اپنے ہاتھوں پکڑبھی لے تب بھی ہاتھ کاٹنے کا مجاز نہیں کیونکہ حدودکے نفاذکی ذمہ داری اللہ اور اس کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم نے ریاست کے سر ڈالی ہے ۔ فرد صرف ریاست کوبتائے گا اور مجرم پر حدکے نفاذمیں ریاست کی مدد کرے گا ۔ اس سے زیادہ فرد کی کوئی ذمہ داری نہیں۔کوئی کسی کے قاتل کو خود سے قتل کر دے اورکہے کہ میں نے قصاص لیا ہے، اس کا دعویٰ نہ صرف غلط سمجھا جائے گابلکہ وہ بھی قتل کا مجرم گردانا جائے گا حالانکہ اس نے اپنی طرف سے قصاص لیا ہے ۔
 اسی طرح جہاد ریاست کی ذمہ داری ہے ۔ کوئی ایک فرد ، کوئی ایک گروہ ، کوئی ایک جماعت یا بہت سی جماعتیں مل کر بھی اپنے طور پر اس کی ذمہ دار نہیں ہیں ۔البتہ حکومت اور ریاست کو اس طرف متوجہ کرنا ان کی ذمہ داری ہے اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کامطالبہ حق ہے تو وہ اس کے لیے ریاست کو مجبورکرنے کے لیے پرامن احتجاج اور پریشر بھی پیداکر سکتے ہیں۔ اور اس عمل میں اگر ریاست کی طرف سے تشد د ہو تو اس پر صبر، برداشت اور عزیمت یقیناحالات کو بدل کے رکھ دے گی۔مسلمانوں کی تاریخ میں اکابر نے ہمیشہ یہی کیا نہ کہ خود سے اقتدار کے داعی بن بیٹھے۔امام ابوحنیفہؒ سے لے کر امام مالکؒ تک اور امام مالکؒ سے لے کر امام احمد ؒبن حنبل تک سب نے یہ فریضہ ادا کیا ۔ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کو پوری قوت سے کہامگر کسی نے نہ کوئی گروپ بنایا اورنہ جماعت ، نہ معاشرے میں انارکی پھیلائی اور نہ فساد کی بنارکھی۔خود ہر ظلم برداشت کیا ، اور ان کی یہی برداشت اورعزیمت ہی حکمرانوں کی موت بن گئی۔یہی نسخہ آج کے علما ، اکابر اور افراد کو استعمال کرنا چاہیے مگر یہ وادی ، وادی ء پرخا ر ہے اس میں کون قدم رکھے ؟
اللہ ہم سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تم نے دوسرے کے دائرے میں کام کیوں نہیں کیا، ہاں البتہ جو دائرہ ہمارے ذمے تھا اس کے بارے میں سوال ضرور ہو گا۔ ہم دوسروں کے کا م اپنے سر کیوں لیتے رہتے ہیں؟ قرآن مجید ابدی ہدایت کی کتاب ہے ۔ ہر قدم پر قرآن و سنت سے پوچھ پوچھ کر چلنا ہی ہماری فلاح کا باعث بن سکتا ہے ۔ ہمیں پوری دیانتداری سے اس بات کا تعین کرنا چاہیے کہ ہم اصل میں ہیں کیا؟ اور پھر جو حیثیت متعین ہو اس کے مطابق قرآن وسنت سے پوچھا جائے کہ اب ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ میں اگر ایک باپ ہوں تو مجھے قرآن وسنت سے پوچھنا ہے کہ بحیثیت باپ میری کیا ذمہ داری ہے ۔ میں اگر ایک طالب علم ہوں تو اس حیثیت سے ، میں ایک استاد ہوں تو اس حیثیت سے ، میں حاکم ہوں تو اس حیثیت سے، میں اگر محکوم ہوں تو اس حیثیت کے اعتبارسے قرآن وسنت سے پوچھوں کہ مجھے کیا کرنا ہے اور میرے فرائض کیا ہیں۔
قرآن مجید کا ہر حکم ہر ایک کے لیے نہیں ہے ۔ بعض احکام سب کے لیے اور بعض خاص خاص طبقات کے لیے ہیں، مثلاً بعض صرف علما کے لیے ، بعض صرف عام افراد کے لیے ، بعض صرف عورتوں کے لیے ، بعض صرف مردوں کے لیے ، بعض صرف اساتذہ کے لیے ، بعض صرف طلبا کے لیے اسی طرح بعض صرف حکمرانوں کے لیے اور بعض صرف رعایا کے لیے ۔ ہم اپنی حیثیت کا تعین ہی نہیں کر پاتے اور غلط فہمی سے حکومت سے متعلق احکام کو اپنے سے متعلق سمجھ لیتے ہیں۔ اور جو اپنے سے متعلق ہیں انہیں بھولے رہتے ہیں۔میں جب اپنی حیثیت متعین کرکے قرآن وسنت سے ہدایت کے لیے رجوع کروں گا تو ممکن نہیں کہ مجھے ہدایت نہ ملے لیکن مجھے اپنی حیثیت متعین کرنے میں دیانتدار ہونا چاہیے۔اگرعورت مردوں سے مخصوص احکام کو اپنے لیے سمجھ لے اور مردعورت سے مخصوص احکام کو اپنے لیے ، تو جو نتیجہ ظاہر ہونا ہے وہی مسلم معاشروں میں ظاہر ہو رہا ہے یعنی ابتری ، فساد اور انارکی۔
میری معروضات سن کر میرے دوست نے کہا: یہ باتیں تو ٹھیک ہیں اور تمہار ے سوال کا جواب بھی یہی ہے کہ جو بھی ہو جائے بیٹا باپ نہیں بن سکتا ،لیکن بات اصل میں یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے کہا: 'لیکن'سے تو پہلی بات کی نفی ہوجاتی ہے۔ ایک طرف تو تم یہ کہہ رہے ہو کہ بیٹا وہ جگہ نہیں لے سکتا اور دوسری طرف لیکن سے پھر وہی بات شروع کیے جار ہے ہو۔اس نے کہا لیکن دل نہیں مانتا۔میں نے عرض کی کہ قرآن و سنت کے احکامات دل کی مرضی سے وابستہ نہیں ہوتے بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے منشا پر منحصر ہوتے ہیں اور ہمارے دل کا کام یہ ہونا چاہیے کہ اس منشا کو دیانتداری سے سمجھنے کی کوشش کریں۔دل مانے یا نہ مانے ہمیں تو بہر حال حکم کے منشا کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی سعی کرنی ہے۔
المیہ یہی ہے کہ ہم وزنی سے وزنی اور مضبوط سے مضبوط دلیل پانے کے بعد بھی حتیٰ کہ قرآن و حدیث سن کر بھی 'لیکن' لگاکر اپنی بات پہ قائم رہنے کی نہ صرف سعی کرتے ہیں بلکہ دوسروں سے منوانے کی بھی ہر ممکن کوشش کر تے ہیں۔ہمارے ہاں پہلے سے موجود کچھ ذہنی سانچے ہوتے ہیں اورہم ان سانچوں کی تائید میں قرآن وحدیث سے دلائل ڈھونڈتے رہتے ہیں ۔ہم اپنے ذہنی سانچے قرآن و سنت سے پوچھ کرنہیں بناتے بلکہ سانچے پہلے بنا تے ہیں اور قرآن وسنت سے دلائل بعد میں لاتے ہیں اور اس بات کی کبھی زحمت ہی نہیں گوارا کرتے کہ ایک لمحے کو رک کر یہ بھی دیکھ لیں کہ کیا یہ سانچے درست بھی ہیں کہ نہیں۔میرے اس دوست کے بھی کچھ ایسے ہی سانچے تھے اور وہ پچھلے کئی برس سے پورے خلوص کے ساتھ ان سانچوں کے مطابق قرآن وسنت کو ڈھالنے کی کوشش میں مگن تھا۔اور آج بھی وہ یہی کام کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔اوراگر ، مگر، لیکن سے کام لے کر ہر بات کی نفی کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے سوچا میرے دوست پر ہی کیا موقوف ، دورِ حاضر میں تو اکثر مسلم جماعتیں ، تنظیمیں اور گروہ اسی اگر، مگر اور لیکن سے کام لے رہے ہیں۔لیکن سوال تو یہ ہے کہ اگر ، مگر اور لیکن کب تک؟
(مصنف: محمد صدیق بخاری)
نقل شدہ : 
http://www.mubashirnazir.org/PD/Urdu/PU02-0077-Jehad.htm

اتوار، 28 اکتوبر، 2012

ایک سوال

3 تبصرے
ذہن میں اُلجھا ہوا ایک سوال ہے کہ ، کیا اپنی ہی مملکت کی پولیس یا فوج سے ٹکراؤ کرنا اور انکو اپنے شہروں میں‌ بےبس کرکے انہیں اُنکی سرکاری ڈیوٹی پوری نا کرنے دینا کوئی قابل تحسین عمل ہے؟ اور اگر ایک شہر کے لوگ اپنے ایسے اعمال کو باعث‌ِافتخار سمجھیں‌ تو انکے اس رویئے کو کیا نام دیا جائے گا؟

منگل، 23 اکتوبر، 2012

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

0 تبصرے
الحمد اللہ ۔ یہ میرے بلاگ کی پہلی تحریر ہے۔